top of page

"او کینیڈا" ہم سب کی کہانی

  • Writer: Q.A.Saba
    Q.A.Saba
  • Jul 11, 2020
  • 11 min read

زیادہ عرصہ تو نہیں گذرا شاید، ابھی کچھ سولہ سال پرانی ہی تو بات ہے جب ہم مئی کی گرم پاکستانی دوپہروں کو الوداع کہہ کر پیئرسن انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کینیڈین سمر کی خوشگوار ہوا کو محسوس کرتے ہوئے باہر نکلے تھے۔سائے میں مئی کے باوجود خنکی تھی۔موسم کے ساتھ ساتھ اس شہر کی خوشبو بھی بہت مختلف تھی۔لوگ،راستے ،سواریاں ،ہر چیز سے اجنبیت ٹپکتی تھی اور ہر لمحے اکیلا اور اداس کرتی جاتی تھی۔

آنکھوں کے لیے سب راستے اور منظر بلکل نئے تھے اور لوگوں سے لے کر مٹی گارے کی عمارتیں اور لکڑی کے خوبصورت لیکن نازک اور دوسرے لفظوں میں پھسپھسے گھر بھی گویا یوں دیکھتے محسوس ہوتے تھے جیسے سسرال میں دور پرے کے رشتے دار گہری نظروں سے نئی دلہن کو دیکھتے ہیں ۔

یہ کہاں آگئے ہم۔۔۔ کبھی خوشی توکبھی عجیب سی اُداسی اندر سرائیت کرتی جاتی تھی۔ مشکل کا وقت بھی ساتھ ہی آیا لیکن اسوقت تھوڑی جد وجہد کے بعد چیزیں جلد اپنی جگہ پر آ گئیں اور ہم اپنے پہلے چھوٹے سے مگر خوبصورت اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئے۔

راوی چین ہی چین لکھتا تھا لیکن اُداسی اور تنہائی کے ساتھ۔پاکستان کی ہر بات یاد آتی تھی حتٰی کہ لوڈ شیڈنگ بھی(مارو مجھے مارو 😄) صرف اس لیے کہ اس سے اپنوں کے ساتھ بیٹھنے کا خیال جڑا ہوتا تھا۔ سسرال اور میکہ دونوں ہی طرف ماشااللہ بھرے گھر چھوڑ کر آئے تھے۔جوائنٹ فیملی میں لاکھ برائیاں صحیح لیکن یہ بات ماننے والی ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی شکل میں کوئی نیا ایڈونچر وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے جو ہمہ وقت دھیان بٹاے رکھتا ہے، ایسے میں تنہائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا🙈۔

(کینیڈیں پت جھڑ میں بکھرے رنگ برنگے خزاں رسیدہ پتوں کا ایک منظر .مسسی ساگا )


اپنے آج سے سولہ سال پہلے والی زندگی کا موازنہ کروں تو جیسے یہ تین سو ساٹھ کے زاویے پہ پوری کی پوری گھوم چکی ہے ۔

اب غور کروں تو کسی بھی نئی جگہ کو اپنانے کی کوشش کے پیچھے بہت سارے عوامل ہوتے ہیں جن کے بارے میں آپ کو کوئی نہیں بتاتا کبھی اسلیے بھی کہ وہ بھی آپکی طرح اسی مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں اور کبھی اسلیے بھی کہ وہ آپکے سامنے ہمیشہ سے سيٹلڈ اور خوش باش نظر آنا چاہتے ہیں جیسے نئے ملک کو انھونے نہیں بلکہ سر زمین نے انکو اعزاز کے ساتھ اپنایا ہے حالانکہ ہر نیا آنے والا کم و بیش ایک جیسی صورت حال سے گزرتا ہے۔

اسوقت نہ فیس بک اور واٹس اپ تھا اور نہ یو ٹیوب۔وائی فائی اور اسمارٹ فون پہ شاید موجد کام کر رہے تھے۔ دل بہلانے کے اسباب کم تھے،کتابوں کا ذخیرہ اسوقت بہت کام آیا۔ ٹی وی سے کچھ خاص رغبت نہیں تھی۔ پاکستان بات کرنے کے لیے میسینجر یا پھر کالنگ کارڈ خریدنے پڑتے تھے اور یاہو اور ایم ایس این میسنجر پہ آدھا وقت" آواز آ رہی ہے" "تصویر آ رہی ہے" کی نظر ہو جاتا ۔تصویروں کا تبادلہ ای میل سے ہوتا تھا جو صبر کے ساتھ بیٹھ کے اپلوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنی پڑتی تھیں اور ویڈیوز کسی آنے جانے والے کے ساتھ سی ڈی یا کیسٹ کی شکل میں آتی تھیں۔ مسی ساگا میں آج سی گہما گہمی نہیں تھی۔ کچھ دیسی ریسٹورنٹس تھے جن میں اکثر پیچھے گھریلو خواتین ہی کھانا پکا رہی ہوتیں اسلیے کچھ خاص فرق نہ محسوس ہوتا ۔یوں بھی جو نیا نیا پاکستان سے آیا ہو اسکی زبان کے سب ذائقے باقی سب یادوں کی طرح دیر تک تازہ رہتے ہیں۔

حلال حرام کے مسئلے شاید اتنے نہیں تھے جتنے بنا دیے گئے تھے۔کچھ اس بارے میں اپنا علم بھی محدود تھا کچھ آتے ہی پالا بھی ایسے لوگوں سے پڑا کہ ہر چیز کھاتے ہوئے ذہن اسی میں اُلجھا رہتا اور زندگی عذاب محسوس ہوتی۔ہمارے آس پاس کے زیادہ تر احباب نئے تھے اور ہماری طرح کے حالات سے ہی گزر رہے تھے اسلیے اکثر محفلوں میں مثبت اور حوصلہ افزا باتوں کے مقابلے میں منفی سوچیں اور حوصلہ شکن گفتگو غالب رہتی۔


تصویر- ہمارے پہلے گھر کی قد آدم کھڑکیوں سے نظر آنے والے "گو اسٹیشن" کا برف سے ڈھکا خوبصورت منظر ہے۔


مصروفیت ہزار نعمت ہے ،آج کبھی جاب کبھی بچوں کے آگے پیچھے بھاگتے ،گھر اور باہر کے ہزار کاموں میں کیسے وقت گزرتاہے پتا بھی نہیں چلتا کہ کب شام ہوئی اور کب نیا دن بھی نکل آیا۔رہی سہی کسر اسمارٹ فونز نے پوری کر دی ہے۔


خالی دماغ شیطان کے گھر کے ساتھ ساتھ اُداسی،مایوسی اور ڈپریشن کا بھی گھر ہوتا ہے۔آپ تھوڑی دیر خالی بیٹھ جائیں یا صرف سو کے اٹھنے کے بعد خالی الذہن بستر پہ دراز رہیں آپکو زندگی کی وہ وہ محرومیاں اور حسرتیں یاد آئینگی جن کی طرف کبھی خوشگوار حالات میں دھیان بھی نہ گیا ہو۔آپ اپنے رشتےداروں کی کج رویاں یاد کر کے ان سے تصور ہی تصور میں ایسے ایسے بحث مباحثے اور تکرار کرینگے جو دراصل کبھی ممکن ہی نہ ہوں😄۔

کسی بھی ملک ہجرت کرنے والوں کو نئی جگہ کو اپنانے کی پریشانی کے ساتھ ساتھ بے جا فرصت اور خالی پن بھی مایوس کر دیتا ہے۔اُس وقت بچوں کی مصروفیت تو تھی نہیں۔ڈرائیونگ ٹیسٹ کا پہلا مرحلہ پورا کرنے کہ بعد روڈ ٹیسٹ کے لیے آٹھ مہینے کا وقفہ ہوتا ہے ،نئی جگہ پہ نئے موسم اور اجنبی راستے بھی اُلجھا دیتے ہیں۔

اگرچہ شروع میں حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی زبان بولتا نظر آئے دل چاہتا ہے اسے اپنا بنا لیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے جیسے لوگ تلاش کرنے اور اپنا حلقہ احباب بنانے میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے ،پھر دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا!

کچھ لوگ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں تو کچھ لوگ کترا کے نکل جانا چاہتے ہیں اور کہیں کہیں آپ پہلے سے بنے گروپس میں خود کو مس فٹ محسوس کرتے ہیں الغرض ایک عمر لگتی ہے اس دشت کی سیاحی میں۔ یونیورسٹی کے دونوں میں ہمارا ایک قدم یونیورسٹی میں ہوتا تھا تو دوسرا ورلڈ میمن فاؤنڈیشن میں شاید ہی کوئی قابل ذکر کورس ہو جو چھوڑا ہو ،ہر چیزسیکھنے کا جنون بہت خوار کرواتا تھا لیکن یہاں آکے اُن مشغلوں میں گم ہونا بھی اپنے ملک کے مقابلے میں بہت مہنگا لگتا,جو رنگوں کے ڈبے ہمارے ہاں دو سو روپے میں مل جاتے تھے اُسکا فقط ایک رنگ یہاں آٹھ ڈالر کا نظر آتا تو خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اپنی سستی مارکیٹوں کی بہت یاد آتی جو ایسی خریداریوں سے چاہتے ہوئے بھی روک دیتی۔

بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے دیکھ کر دل دکھتا اور پردیس کی سرد ہوائیں مزید تنہا اور اداس کر دیتیں ۔

جسطرح سردیوں کے اندھیرے اداس کر دیتے ہیں اسی طرح کینیڈا کی بہاریں روشن اور ہرے بھرے دن ساتھ لاتی ہیں۔ چیری کے باغ میں میری لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ کی یہ تصویر مجھے بہت پسند ہے 💕🍒


امیگرنٹ یا ہجرت کرنے والے سب لوگ کم و بیش ایک سے حالات سے گزرتے ہیں اور ایک سے تجربات اور رویئے محسوس کرتے ہیں جو کے ایک فطری عمل ہے۔مسئلہ ہمارے رویوں میں نہیں ہوتا مسئلہ دراصل اس سوچ کا ہوتا ہے جو اسی ماحول کی پروردہ ہوتی ہے جس میں ہم پروان چڑھے ہوتے ہیں اور یہ ذہنیت ہمارے مذہب اور اخلاق کی نہیں بلکہ معاشرے کے اپنے بنائے ہوئے معیار اور لوگوں کے طے کیے ہوئے ریت اور روایتوں کی دین ہے۔بد قسمتی سے مشرق میں طبقے اور کلاس کے مسائل مغرب کی نسبت زیادہ ہیں اور یہ وہ دنیاوی پیمانہ ہے جو ہمارے معاشرے میں لوگوں کا مقام، عزت اور مرتبہ طے کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کچھ اخلاقی قدریں اگر دل سے لگا کے رکھنے کی ہیں تو کچھ رویوں کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینکنےکی اشد ضرورت ہے۔


جب بھی اپنے ملک سے نکل کر دوسری جگہ قدم جمانے ہوں تو سب سے پہلے اپنی سوچ میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے۔ اپنے قلیل تجربے کی بنیاد پر یہ ہیں کچھ نکات جو آپکو نئی جگہ اپنانے کو میں مدد دیتے ہیں۔


🍁نئے ملک کی ثقافت اور طریقوں کو سمجھیں مثال کے طور پہ اگر یہاں کسی کے گھر جانے یا آنے سے پہلے اطلاع دینے کا رواج ہے تو اسکو برا بھلا کہنے اور پاکستان میں ایک دوسرے کے گھر بے دھڑک ہو کے نازل ہونے کو یاد کرنے کے بجائے اسکی وجہ سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں مثلاً وہاں گھر کے سب افراد کا کام کرنے کا رواج نہیں،لوگ عمومآ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی آپکو کمپنی دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔دوسری بات یہ کہ گھر بڑے ہوں یا چھوٹے ڈرائنگ روم مہمانوں کے لیے مختص ہوتا ہے جہاں عام گھر والوں کی آمد و رفت نہیں ہوتی اسلئے صاف ستھرا رہتا ہے ۔تیسری بات یہ کہ گھر میں ماسی اور نوکروں کی بھرپور امداد کے باعث اکثر گھر چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں اور کوئی کسی بھی وقت آ جائے مہمانوں کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔مغرب میں عموماً ایک گھر میں ایک خاندان رہتا ہے ۔گھر چھوٹے ہوتے ہیں صفائی سے لیکر کھانے کے انتظامات تک سب کچھ گھر والوں کو خود کرنا ہوتا ہیں ۔سب لوگ مصروف رہتے ہیں۔گھر کی خواتین اگر جاب نہ بھی کریں تو بھی بچوں کے اور اُنہیں اسکول لانے لیجانے ،سودا سلف لانے اور گھر کے ہزاروں چھوٹے موٹے کام ہر وقت منتظر رہتے ہیں۔ایسے میں اچانک مہمان رحمت نہیں بلکہ زحمت معلوم ہوتے ہیں۔آپ اطلاع دے کر جائیں آئیں تو میزبان پرسکون ہو کر آپکی خاطر مدارات کر سکتا ہے اور اگر کسی وجہ سے معذرت کر لے تو اسمیں بھی برا مانے کی کوئی بات نہیں۔اصل میں اسلامی طریقہ کار بھی یہی ہے۔


🍁 جتنی جلدی آپ "یہاں" اور "وہاں" کا موازنہ کرنا چھوڑیں گے اتنی ہی جلدی آپ نئی جگہ کو اپنائیں گے ۔ اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیں کہ وہاں آپکے پاس کیا کیا آسائشیں اور سہولتیں تھیں بلکہ یہ سوچیں کے یہاں آپکو کیاکیا نعمتیں میسر ہیں۔یہ سوچ سوچ کے خون نہ جلائیں کہ وہاں آپکی نند،بھاوج،جیٹھانی ماسیوں کی فوج پہ حکومت کر رہی ہیں اور یہاں آپ اپنے باتھ روم میں ٹاکیاں مار مار کے ہلکان ہیں۔آپ کو اللہ نے پہلی دنیا کے ملک کا معیارِ زندگی عطا کیا ہے جسکی اپنی سہولتیں اور آسانیاں ہیں ۔آپکی زندگی نسبتاً پروڈکٹیو ہے اور اسمیں دوسرے بہت سے مواقع میسر ہیں اور جب یہاں آپ کے قدم اچھی طرح جم جائیں گے تو ایک دن آپ میڈ بلانے کے قابل بھی ہو جائیں گے جو اپنی لگژری گاڑی میں بیٹھ کے آپ کے ہاں کام کرنے آئیگی۔

تصویر-خدا کی لاتعداد خوبصورت نعمتیں بلکل مفت ہیں اور یہاں کی سرکار کی بدولت لوگوں کے لیے ان نعمتوں میں کچھ آسانیاں بھی شامل کر دی گئی ہیں اُن میں سے ہیں یہ صاف ستھرے ہرے بھرے جھیل کنارے بنے پارک جہاں آپ پرسکون ہو کر پورا دن خوشگوار گزار سکتے ہیں۔تصویر ہے ہے پچھلے سال گرمیوں میں کورونیشن پارک میں دوستوں کے ساتھ پکنک کی۔امید اور دعا ہے کہ یہ دن جلد دوبارہ لوٹ آئیں۔آمین


🍁 سردی کے مزے لیں۔ آسمان سے گرتے سفید موتیوں جیسے گالوں میں خوشی تلاش کریں۔سردیوں کے دن سخت اور اداس ہوتے ہیں لیکن مستقل شکایت اس مسئلے کا حل نہیں اسلیے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔ اپریل کی بارشیں مئی میں پھول کھلاتی ہیں اور پھر چمکتی بہار اپنے جوبن پہ ہوتی ہے ،چیری بلاسم کے ہلکے گلابی پھول اور رنگ برنگے ٹیولپ آپ کے ہونٹوں پہ بے وجہ ہی خوشگوار مسکراہٹ لے آتے ہیں . ایک مہینہ اور آگے بڑھتا ہے تو نرم سبک ہوا کے ساتھ موسمِ گرما کا آغاز ہو جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ کسی شہزادے نے آ کے سوئی ہوئے شہزادی کی بچی ہوئی آنکھوں کی سوئیاں نکال دی ہوں اور کسی جادو کے اثر سے سے سویا ہوا شہر ایک دم ہی جاگ گیا ہو۔ہر طرف ایک چہل پہل اور سر خوشی۔برف پگھل جاتی سردی میں شام چار بجے اندھیرے میں ڈوب جانے والے دن کھچ کے ایک دم رات ساڑھے نو بجے تک طویل ہو جاتے ہیں۔باغ رس دار اسٹرابیری،چیری،رس بھری،آڑو اور انواع اقسام کے پھلوں سے لد جاتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھ سے توڑ کر کھاتے ہوئے جنّت کا خیال آتا ہے۔ جھیلیں اور پارک آباد ہو جاتے ہیں اور باربی کیو کی خوشبو اور دھوئیں سے فضا مہکنے لگتی ہے۔ پھر جب آہستہ آہستہ یہ لمبے دن آپکو تھکانے لگتے ہیں تو اکتوبر کے اوائل میں میپل کے درختوں کا رنگ بدلنے لگتا ہے،سرخ ،زرد، نارنجی ،کتھی۔شجر سلھگنے لگتے ہیں۔ شام جیسے تھک کے جلدی گھر آنے کو بے قرار ہوتی ہے۔خزاں مدھم سروں میں بانسری بجاتی ہے تو ہر طرف جیسے رنگ ہی رنگ اور دھنیں بکھر جاتی ہیں (او کینیڈا تیرے موسم حسین ہیں 💕)


🍁 اکیلے باہر نکلیں اور نئے راستوں کو اپنے طور پہ سمجھنے کی کوشش کریں۔بس اور ٹرین سے سفر کریں اس سے آپکو نئی جگہ سمجھنے میں مدد ملے گی اور آپ جلدی شہر سے مانوس ہونگے۔اگر آپکی دسترس میں ہو تو جلد از جلد ڈرائیونگ سیکھنے اور لائسنس حاصل کرنے کی کوشش کریں یہ ایک بہت بڑا مرحلہ ہے اور کینیڈا کے لمبے راستوں اور سخت موسم میں ایک بہت بڑی نعمت ہے۔


تصویر-کینیڈا سے چند گھنٹے کی دوری پہ نیویارک میں واقع پروسپیکٹ ماؤنٹین پہ خزاں کا ایک منظر ۔یہ کیلنڈر والا منظر کیمرے میں قید کرنے کی مجھے ہمیشہ خوشی رہیگی🥰


🍁 ہر چند کہ اس سوچ سے پیچھا چھڑانے میں بہت وقت لگتا ہے لیکن کسی بھی کام میں شرمندگی اور بے عزتی محسوس نہ کریں آپ اُس جگہ پہ ہیں جہاں ہر ایک کی عزت اور حقوق ہیں۔ بچپن سے دور دیس بسنے والوں کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ باہر جانے والے اپنے ملک میں تو کام نہیں کرینگے لیکن وہاں جائیںگے تو چھوٹی نوکریاں بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اسوقت یہ سن کے پردیسیوں پہ ترس آتا تھا لیکن دراصل یہ ہمارے لوگوں کم علمی ہے ۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ہمارے ملک میں میں عزت اور پیسے کے پیمانے مختلف ہیں اور وجہ وہی ہماری ذہنیت اور طبقاتی فرق۔ مغرب کے بیشتر ممالک میں کسی بھی قسم کی نوکری کرنے والے کے لیے گھنٹے کے حساب سے کم از کم اجرت مقرر ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے حساب سے ہر قسم کی پارٹ ٹائم یا فل ٹائم جاب کر لیتے ہیں۔یہاں ہر کام کی عزت ہے، اور odd جاب بھی آپکا گھر چلا سکتی ہے اسلیے جب تک آپ اپنی فیلڈ تک نہیں پہنچتے اپنا سفر فخر کے ساتھ جاری رکھیں۔


🍁ہر وقت ڈالر سے روپے کی تبدیلی اور حساب کتاب کرنا اور اس وجہ سے ہر چیز پاکستان سے منگوانے کی عادت کو جلد از جلد خیر آباد کہہ دینے میں ہی عافیت ہے۔ آپ چاہتے کچھ ہیں ،دوسرا کچھ سمجھتا ہے ،پھر بازاروں میں خوار ہو کے آپ کے لیے شاپنگ کرتا ہے،پھر سامان جمع کرنے سے لے کر منزل تک پہنچانے تک کئی لوگ پریشان ہوتے ہیں اسکے بعد آپکو کسی آنے جانے والے کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے اور کبھی کبھی ناگوار باتوں کا سامنا بھی کرتا پڑتا ہے اور آخر میں اکثر آپ کے گھر کی چھوٹی چھوٹی الماریاں بیکار سامان سے بھر جاتی ہیں کیونکہ وہ آپکی منشا کے مطابق نہیں ہوتا ۔


🍁جس دیس بھی ہجرت کی ہے وہاں کی زبان سیکھیں۔رنگ برنگے انگلش میڈیم اسکولوں نے اچھی انگریزی تو کیا سیکھانی تھی ہماری اپنی زبان سے بھی ہمارا تعلق کمزور کر دیا۔آپکی انگریزی جس لیول کی بھی ہو اسے مزید بہتر بنائیں۔نئےامیگرنٹس کے لیے قائم کیے گئے ای ایس ایل یعنی English as a second language اسکولز جوائن کریں،وہاں آپ اپنے جیسے بہت سے لوگوں سے مل کے اچھا اور پُراعتماد محسوس کریں گے اور نیا کلچر اور نئی زبان کے ساتھ ساتھ یہ کچھ گھنٹے کی کلاسیں آپکو اپنا ریزیومے بنانے،جاب انٹرویو کی تیاری کرنے اور اپنے آپ کواب گریڈ کرنے میں بھی مدد دینگی۔


🍁 والنٹیئر ورک کریں۔ اسکولوں،لائبریریو،اسپتالوں یا اور دوسری جگہوں پہ فی سبیل اللہ کام کرنا آپکی جیب تو نہیں بھرے گا لیکن آپکو مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ آپکے لیے نئے دروازے کھول دے گا۔آپ کے تعلقات بڑھیں گے۔آپ کو ماحول سمجھنے میں مدد ملے گی ،آپکی زبان اور بات چیت بہتر ہوگی اور کبھی کبھی اسطرح کام کرنا آپ کو اپنی پسند کی جاب حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے.


🍁 آخری لیکن سب سے اہم بات کہ اپنی صحبت مثبت لوگوں کے ساتھ رکھیں جو خود بھی اچھا سوچتے ہوں اور آگے بڑھنے کے متمنی ہوں اور آپکی بھی حوصلہ افزائی کا باعث بنیں۔سمجھدار اور اچھے دوست بنائیں۔ ہر وقت پاکستان کو یاد کر کے رونے والوں اور یہاں کی زندگی سے شکوے شکایتیں کرنے والوں سے دور رہیں۔انکی باتیں نا صرف آپ کو پریشان کریں گی بلکہ آپکی ہمت توڑ دینگی اور ساری مثبت توانائیاں بھی نچوڑ لیں گی۔


کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ صبر اور ہمت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ڈٹے رہیں۔سالوں سے آباد ہوئے لوگوں کے طرز زندگی سے کم مائیگی نہ محسوس کریں کہ انکا سفر ممکن ہے آپ سے زیادہ سخت رہا ہو اور نجانے وہ کیا کیا جھیلتے یہاں تک پہنچے ہوں۔مثبت سوچیں،مصروف رہیں،موازنہ کرنا چھوڑ دیں ۔آہستہ آہستہ ہی سہی آگے بڑھتے رہیں اور جب آپکے قدم جم جائیں اور آپ کسی نئے امیگرنٹ سے ملیں جو پریشان اور اداس ہو،اپنے ملک کی محبت میں مبتلا اپنے گھر کو یاد کر کے روتا ہو اور اسے کوئی راہ سجائی نہ دیتی ہو تو اسکے سامنے شیخیاں بگھارنے کے بجائے اسے مسکرا کے خوش آمدید کہیں،ایمانداری سے گائیڈ کریں اور مہربان ہو کر سمجھائیں کہ آپ بھی کبھی اسکی جگہ پہ تھے اور ہر چند کہ سفر مشکل ہے لیکن اسکی ناؤ بھی سبک رفتاری سے چلتے چلتے ایک دن کنارے لگ جائیگی کیونکہ کینیڈا ایک پر امن اور خوبصورت ملک ہے⁦🇨🇦⁩💕۔




تصویریں 2004 میں البرٹا بینف کی مشہور ٹھہری ٹھہری پرسکون اورخوبصورت جھیل "لیک لوئس" کے کنارے ڈھلتی شام تلے کھڑے دو نئے نویلے پنچھیوں کی ہیں کہ کبھی ہم خوبصورت تھے کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند سانس ساکن تھی۔۔۔ *💕



 
 
 

Commentaires


Join my mailing list

© 2023 by The Book Lover. Proudly created with Wix.com

  • White Instagram Icon
  • White YouTube Icon
bottom of page